قرآن کریم کا اعجاز: مختصر تعارف
اعجاز قرآنی : معنی تعریف وضاحت
اعجاز قرآنی کی تعریف اور وضاحت سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لفظِ "اعجاز" كى مختصرًا لغوی وضاحت بھی کی جائے۔
اعجاز کا لفظ "عَجْز"سے بنا ہے جس کے معنی ہیں "بےبس ہوجانا، ہارنااور درمانده ہونا وغیرہ" جبکہ اعجاز کے معنی ہیں "بےبس کرنا اور ہرانا اور درمانده كرنا ، اور لفظ معجزہ بھی اسی سے بنا ہے جس کے معنی ہیں عاجز کرنے والی چیز، چونکہ معجزہ میں قدرت الہی انبیاء علیہم السلام کے ہاتھوں پر ظاہر ہوتی ہے اس لیے وہ انسان کو عاجز اور بے بس کر دیتی ہے اور لوگ اس بات کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ يہ بات انسان کی قدرت وطاقت سے باہر ہے ،اور جس شخصیت کے ہاتھ پر یہ ظاہر ہورہی ہے اسے یقینًا تاييد الہی حاصل ہے، معجزات کے ظہور کا بنیادی مقصد انبیاء علیہم السلام کے مخالفین کے سامنے دعوی رسالت کا اثبات اور ان کی تائید تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آفاقی معجزہ:
آپ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت چونکہ آفاقی ہے اور تا قیامت رہے گی؛ اس لیے الله تعالی نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو معجزہ بھی آفاقی عطا فرمایا جو قیامت کے دن تک آپ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کی تائید کرتا رہے گا اور اس کی دلیل وبرہان بن کر اسے ثابت کرتا رہے گا، اور یہ معجزہ قرآن ہے۔
قرآن کریم کے اسی معجزانہ پہلو کو "اعجاز قرآنی"کا نام دیا جاتا ہے، یعنی قرآن کریم فصاحت، بلاغت، دلالت کی وسعت، معانی کی گہرائی، مضا مین وافکار کی ندرت اور جدت، کائناتی حقائق کے بیان کی صحت و صداقت اور امر واقعہ کے ساتھ مطابقت کےاعتبار سے ایسے محیر العقول امور پر مشتمل ہے کہ ان کے سامنے انسانی عقل واستعداد اپنی درماندگی ، بے بسی اور عاجزی کا اظہار کرنے لگتی ہیں اور انصاف پسند، عادل اور سلیم الفطرت انسان بے اختیار اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا ہے،جس ہستی کی زبان مبارک سے یہ کلام ادا ہوا ہے وہ یقینا الله تعالی کی برگزیدہ ہستی ہے اور منصب نبوت پر فائز ہے ،اور یہ الله تعالی کا کلام ہے جو اس نے اس ہستی کی طرف وحی کیاہے۔ اسی بات کی طرف سورۃ سبا کی آیت نمبر 34 میں یوں ارشاد ہے:
( ويَرَى الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ الَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ هُوَ الۡحَـقَّ ۙ وَيَهۡدِىۡۤ اِلٰى صِرَاطِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَمِيۡدِ ۞)
"اور جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور اس (اللہ) کا راستہ دکھاتا ہے جو اقتدار کا مالک بھی ہے، ہر تعریف کا مستحق بھی۔"
اعجاز قرآنی کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں۔
1۔صوتی پہلو: قرآن کریم کے الفاظ اور معانی میں ایک حیرت انگیز انسجام symphony، تماسک cohesion ، تناغم اور آہنگ rhythm پایا جاتاہے، لیکن اس اعجاز کے ادراک کے لیے علم الاصوات phonetics میں مہارت کی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسان اس کا ادراک نہیں کرسکتاہے۔
2۔ معنوی و دلالاتی پہلو: قرآن کریم معانی کی گہرائی کے اعتبار سے بھی معجزہ خداوندی ہے،اور یقینا انسانی طاقت وقدرت سے باہر ہے ،مختصر ترین عبارتوں میں وسیع معانی کو سمونا، الفاظ کی تقدیم وتاخیر ،اور تعریف وتنکیر میں اختلاف کے ذریعے معانی میں وسعت و تاکید پیدا کرنا بھی قرآن کریم کی ایک ایسی خاصیت ہے جو انسانی طاقت وقدرت سے باہر ہے ،لیکن اس کے ادراک کے لیے عربی زبان وادب کے اسالیب ،علم المعانی semantics میں مہارت کی ضرورت ہے اس کے علاوہ figurative language کے مختلف انداز مثلا تشبیہ ، مجاز ، استعارہ ، کنایہ اور محاکات imagery وغیرہ سے واقفیت بھی ضروری ہے۔
3۔ تاریخی اعجاز: قرآن کریم کے اعجاز کا ایک اہم اور عام فہم پہلو اس کاتاریخی اعجاز ہے ،قرآن کریم نے ان گزشتہ اقوام کے واقعات تفصیل کے ساتھ بیان کیے جن سے جزیرہ عرب کے باشندے محض نام کی حد تک ہی واقف تھے ، ایک ایسے شخص کا ان واقعات کی تفصیل اور بعض صورتوں میں ان کی جزوی تفصیلات تک بیان کرنا جو نہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو اور نہ اس نے ان علاقوں کا تفصیلی سفر وسروے کیا ہو جہاں یہ واقعات پیش آئے،یقینا انسان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ یہ شخصیت کوئی عام شخصیت نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق برائے راست خالق ارض وسماء كے ساتھ ہے :((یہ غیب کی بعض خبریں ہیں جوہم نے آپ کی طرف وحی ہیں نہ تو آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔))
4۔ تشریعی اعجاز: قرآن کریم میں اللہ تعالی نے سیاسی، سماجی، معاشی اور عائلی قوانین کو ایسے جامع اور مکمل اور مختصر ترین انداز سے بیان فرمایا ہے کہ قانون کے ماہرین اس اختصار، جامعیت، اور آفاقیت کودیکھتے ہوئے بے اختیار یہ پکار اٹھتے ہیں کہ یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں ہو سکتا ہے،مثلا قرآن نے قوانین وراثت اور اس کی تمام ممکنہ صورتوں کو انتہائی معجزانہ جامعیت کے ساتھ ایک صفحے سے بھی کم میں بیان کیا ہے،مشہور امریکی قانون دان Dr. Robert Cran جو وائٹ ہاؤس اور امریکی وزارت خارجہ میں تیس سال تک بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے،اور امریکی صدر نیکسون کے مشیر بھی رہے، قانون میں ڈبل پی ایچ ڈی کے حامل تھے،جب انہوں نے قرآن کریم میں وراثت سےمتعلقہ آیات کا مطالعہ کیا تو اسلام قبول کر لیا، اور کہا کہ قانون کی فیلڈ میں میرے علم وتجربے کے مطابق کسی انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ وراثت کی تمام صورتوں اتنی جامعیت اور بے ساختگی وبےتکلفی اور اختصار کے ساتھ بیان کرسکے، ایسے مشہور فرنچ اسکالر روجیہ جارودی، مشہور جرمن اسکالر مراد ہوفمان بھی سال ہا سال تک مختلف نظاموں کےمطالعے کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہوئے، روجیہ جارودی کا سفر ہدایت توبڑا ایمان افروزہے جوہمیں حضرت سلمان فارسی رضی الله تعالی عنہ کے سفر ہدایت کی یاد دلاتاہے، تیس کی دہائی میں انہوں نے حق کی جستجو اور تلاش شروع کی اور اگلے پچاس سالوں تک وجود میں آنے والی ہر تحریک کو آزمایا لیکن انہیں ہرنظام اور ہر تحریک میں مادہ پرستی، نفسانیت، انسانوں کو اپنا محکوم وغلام بنانے کا جذبہ، نسلی وعلاقائی برتری کے جذبات ہی نظر آئے ،حقیقی مساوات، انسانیت کے لیے ایثار وقربانی کا جذبہ اور حقیقی آزادی کہیں نظر نہ آئی، تھک ہار کر جب سب سے آخر میں اسلام کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کا مطالعہ کیا تو یہاں انہیں اپنا گوہر نایاب مل گیا جس کی تلاش میں آپ نے نصف صدی صرف کی تھی، اور 1982میں مشرف بااسلام ہوئے، یقینا الله تعالی بڑا قدر دان ہے حق کےمتلاشی لوگوں کی محنت اور جستجو کو ضائع نہیں کرتا ہے۔کی محنت اور جستجو کو ضائع نہیں کرتا ہے
Comments
Post a Comment