قرآن کریم کا سائنسی اعجاز

  قرآن کریم کا سائنسی اعجاز

سائنسی اعجاز سے مراد قرآن کریم کا سائنسی حقائق معارف ومعلومات کے بیان میں انسانی تحقیق و ریسرچ سے سبقت کرنا اور ایسے حقائق کے بارے میں خبر دینا ہےجنہیں تجریبی علوم Experimental Sciences  نے لیب ریسرچ یا فیلڈ ریسرچ کے بعد ثابت کیا ہو جب کہ  آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں موجود انسانی ذرائع Human resources سے ان حقائق کے ادراک کا ناممکن Impossibility اور محال ہونا بھی ثابت ہو چکا ہو۔
   اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ جس زمانے میں اور جس سوسائٹی میں قرآن کریم نازل ہوا وہ طبعی علوم Natural Sciences کے لحاظ ایک پسماندہ سوسائٹی تھی اس زمانے کے لوگوں کے لیے جدید سائنسی نظریات مثلا رحم مادر میں جنین کی افزائش کے مراحل ، پین ریسپٹرز کا انسان کی جلد میں ہونا، زمین کا گول ہونا پہاڑوں کا حرکت کرنا، پہاڑوں کا زمین میں گڑا ہوا ہونا اور پہاڑوں کی روٹس کا ان کی لمبائی کے برابر ہونا، سطح زمین crust کے نیچے مائع liquid  کا ہونا اور زمین کا اس کے اوپر ٹھہرا ہوا ہونا، زمین کے اندر طبقات کاوجود، زمین كے  اردگرد فضاء Atmosphere کی مختلف تہوں spheres کاوجود، خلاء میں آکسیجن کا نہ پایا جانا، سمندروں کی سطحی موجوں کے علاوہ ان کےاندر موجوں کا ہمہ وقت تلاطم، سمندر کے تہہ میں آگ کا وجود، اجسام کے درمیاں تجاذب کی قوت Gravity کا پایا جانا، بلیک ہول کا وجود اور ستاروں کا اس میں گر کر ختم ہو جانا، بادلوں کا بھاری ہونا، لوہے کا خلا اور دوسرے ستاروں سے سے نزول وغیرہ سے واقفیت اور ان کا علم ناممکن بلکہ محال تھا، یہ وہ جدید سائنسی نظریات ہیں جنہوں نے انیسویں یا بیسویں صدی میں سال ہا سال کی تحقیقات اور کاوشوں کے بعد حقائق کا روپ دھارا، لیکن چودہ سو سال پہلے نازل ہونے والی کتاب قرآن کریم میں ہم ان کا تذکرہ یا ان کی طرف اشارہ پاتے ہیں ۔
    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جو سائنسی اور تجریبی علوم Experimental Sciences سے ناآشنا ونابلد تھا، اس صحرا نشین قوم میں پروان چڑھنے والے ایک شخص کی زبان سے ادا ہونے والے کلام میں ان تمام حقائق ومعارف کا ذکر کیسے آگیا، اور کس طرح مکمل صحت اور ایکوریسی کے ساتھ آگیا، حالانکہ قرآن کریم جس زمانے میں نازل ہوا اس زمانے میں اکثر چیزوں کے بارے میں لوگوں کے خیالات و نظریات کے برعکس تھے، مثلا جس دور میں لوگوں بادلوں کو ہلکا ہونے میں روئی کے گالوں سے تشبیہ دیتے تھے اس دور میں قرآن کریم نے بادلوں کے بھاری ہونے کی صراحت ہے، جس دور میں قرآن کریم میں اس بات کی صراحت کی کہ تمام اجرام فلکیہ اپنے مداروں میں تیر رہے ہیں اس دور میں ساری دنیا میں لوگوں کا نظریہ یہ تھا کہ چاند، سورج اور دوسرے سیارے آسمان میں جڑے ہوئے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں لوگ کائناتی حقائق کے بارے میں نا آشنا تھے اور اکثر لوگ ان کے بارے میں صریح غلطیوں میں پڑے ہوئے تھے یہ کیسے ممکن ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر اس کائنات کے بارے میں مختلف حقائق ٹھیک ٹھیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوگئے ؟؟!!
اس سوال کا صرف ایک ہی عقلی و منطقی Rationale جواب ممکن ہے کہ یہ کلام درحقیقت اس ذات کا ہے جو ان حقائق کی خالق ہے اور انہیں اس کائنات میں ودیعت کرنے والی ہے اور یہ قرآن کا زندہ معجزہ ہے، کہ آج جب سال ہا سال کی تگ و دو کے بعد جب سائنس دان کائنات کے کسی سربستہ راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کسی نظریے theory  کو حقیقت fact کا روپ اوڑھانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور پھر جب وہ اس کا ذکر قرآن کریم میں پاتے ہیں تو ان میں سے عادل ومنصف مزاج لوگ اسے کتاب الہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا نبی ماننے میں ذرا بھی تردد نہیں کرتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی عقلی اور منطقی توجیہ اور تعلیل نہیں ۔
قرآن کریم نے کئی آیات میں قرآن میں مذکور حقائق سے مستقبل میں پردہ اٹھنے اور ان کے منکشف اور آشکارا ہونے کا ذکر کیا ہے، مثلا سورہ نمل آیت 93 میں ایمان والوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ((آپ کہہ دیجیے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں وہ عنقریب تمھیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائے گا اور تم انہیں پہچان لوگے-))
دوسری جگہ سورہ فصلت آیت نمبر53 اسی موضوع پر غیر مسلموں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ((ہم عنقریب انھیں اپنی (قدرت)کی  نشانیاں اطراف عالم میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے گا کہ یہ قرآن یقینا برحق ہے ۔))
اسی طرح قرآن کریم نے یہ بھی واضح کیا کہ ہر کائناتی حقیقت جس کا قرآن میں ذکر ہے اس کے ظہور کا ایک متعین مقام ہے، سورہ انعام آیت نمبر 67 میں ارشاد ربانی ہے :((ہر (عظیم) خبر ( کی حقیقت کے ثبوت)کے لئے ایک جگہ مقرر ہے اور جلد ہی یقینا تمھیں معلوم ہو جائے گی ۔))
مقام کی تعیین کے ساتھ ساتھ ہر آفاقی حقیقت کے ظہور کا وقت  بھی الله تعالی نے مقرر فرما دیا ہے، چناچہ سورہ ص کی آیت نمبر 88 میں ارشاد ہے :((اور تم لوگ یقینا اس  (قرآن) کی عظیم خبروں (کی حقیقت) کو ایک مقررہ وقت کے بعد جان لو گے۔))
قرآنی کے مطالعے کی ضرورت واہمیت:
      یہ سوال بہت اہم ہے کہ اعجاز قرآنی کے مطالعے اور اس موضوع پر تحقیق و ریسرچ کی ضرورت کیوں ہے، اور اس کے مطالعے کے علمی ، عملی اور دعوتى  فوائد کیاہیں؟؟
    اس سوال کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی رسالت آفاقی اور قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیئے گئے معجزات میں سے سب سے اہم معجزہ  یعنی قرآن کریم کا اعجاز بھی آفاقی ہے ،کہ آپ صلی الله علیہ وسلم تو اس دنیا سے رحلت فرما گئے لیکن قرآن کا اعجاز امت اِجَابَت (مسلمانوں)کے ایمان کو تازہ رکھنے، نئی نسلوں کو موروثی اور تقلیدی ایمان کے بجائے بصیرت، دلائل اور براہین کی بنیاد پر قائم تحقیقی ایمان سے روشناس کرنے اور عمل کے جذبے کو ابھارنے کے لیے قیامت تک موجود ہے، جبکہ امت دعوت(غیر مسلموں) کو الله کی طرف بلانے اور قیامت تک دین حق کی دعوت دینے اور انہیں راہ راست پر لانے کے لیے الله تعالی کی طرف سے آسمانی آواز اور دعوت حق کو جھٹلانے والوں پر حجت اور برہان ہے۔
    اس اختصار کی مزید وضاحت یہ ہے کہ اس جواب کے دو پہلو ہیں،ایک مسلمان کی اپنی ذاتی زندگی کے اعتبار سے تو اس موضوع سے واقفیت اور شناسائی کا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان ان آفاقی معجزات کا ادراک کرتا ہے ،تو اس کا ایمان مضبوط ہوتا ہے، وہ موروثی، تقلیدی اور جامد ایمان کے دائرے سے نکل بصیرت حجت وبرہان اور دلائل پر قائم ایمان کی طرف بڑھتے ہوئے خود اسلام کی حقانیت کا ادراک Realise کرتا ہے، اور اسی طرح کی ایمانی لذت سے آشنا ہوتا ہے جیسا کہ وہ لوگ ہوئے تھے جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کے حسی physical معجزات کو خود اپنےحواس خمسہ سےمحسوس کیا تھا، ایمان کی یہ تازگی تعلق مع الله کی مضبوطی اور عمل کی قوت واستقامت کا باعث بنتی ہے جو اخروی نجات کی اساس ہے، اس کے علاوہ یہ ادراکات Realisations ایک مسلمان کو اپنے عقائد اور نظریات کے بارے میں خود اعتمادی بخشتی ہیں اور اسے احساس کمتری کے بوجھ اور قید سے آزاد کرتی ہیں جس کا موجودہ دور میں عام طور پر مسلمان شکار ہیں، اور اسی وجہ سے دین کے بارے میں طرح طرح کے شکوک وشبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
   اس موضوع کے دوسرے فائدے کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو ابھی تک دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہو سکے ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق مسلمانوں کے علاوہ دنیا میں موجود لوگوں کی مجموعی آبادی کا تقریبا 70فیصد کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے، اور یہ بات بھی واضح ہے کہ عیسائیت بنیادی طور پر توحید پر ست مذہب ہے اگرچہ تثلیث Trinity کے عقیدے کی وجہ سے وہ خالص توحید تو باقی نہیں رہی جو حضرت عیسی علیہ السلام لے کر آئے تھے، لیکن بہرحال یہ لوگ اپنے آپ کو موحد Monotheist کہتے ہیں اور شرک کو قابل مذمت چیز سمجھتے ہیں، اس معلوم ہوا کہ دنیا میں غیر مسلم آبادی کا بڑا حصہ موحدین Monotheists پر مشتمل ہے، گویا کہ اسلام میں داخل ہونے کے جو دو بنیادی مقدمات ہیں: توحید ورسالت٬ ان میں سے توحید کے تو یہ لوگ قائل ہیں ،انہیں اسلام میں داخل ہونے کے لیے صرف نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان درکار ہے، سائنسی ترقی کے اس دور میں قرآن کریم کے اعجاز اور بالخصوص سائنسی اعجاز کے ذریعے  منطقی اور عقلی  بنیادوں Rational Grounds پر یہ لوگ بآسانی اس بات کے قائل ہوسکتے ہیں کہ قرآن کریم کتاب الہی ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نبی برحق اور خاتم النبین ہیں ۔
     موجودہ دور میں مغربی معاشرے کی بعض اقدار مثلا برداشت ، ڈائیلاگ اور علم سے دلچسپی، حق کی جستجو، اندھی تقلید سے بےزاری ، آزادی اظہار رائے اورشخصی آزادی کے احترام وغیرہ نے تو یہ کام اور بھی آسان کردیا ہے، اس کے علاوہ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ مغربی معاشرہ ایک صدی تک کی مادہ پرستانہ سوچ Materialistic Approach اور غیر مشروط وغیرمقید  آزادی کی وجہ سے سخت انتشار کا شکار ہے ، ان کا معاشرتی نظام تباہی کے دہانے تک پہنچ گیا ہے جبکہ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر چکا ہے جس کا وہاں کا سمجھ دار طبقہ وقتا فوقتا اظہار کرتا رہتا ہے، مغربی معاشرہ مجموعی طور پر سخت روحانی خلا اور تشنگی کا شکار ہے، اور عیسائی مذہب کے عقائد مختلف تحریفات اور توحید کےعام فہم اور سادہ عقیدے میں تثلیث کی موشگا فیوں کی دخل در معقولات کی وجہ سے عقل ومنطق کی کسوٹی پر پورا اترنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اس روحانی خلا کو پر کرنے کے لیے بھی مادیت کا ہی سہارا لیتے ہیں اور یوں  ان کی تشنگی اور پیاس بڑھتی ہی چلی جاتی ہے، اور روحانی خلا میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ، اس صورت حال میں آسمانی ہدایت ہی اس خلا کو پر کر سکتی ہے اور اس تشنہ اور مادیت کے عذاب میں تڑپتی ہوئی انسانیت کے لیے سیرابی اور  نجات کا واحد ذریعہ بن سکتی ہے، چنانچہ آگر مسلمان دعوت کے میدان قرآنی اعجاز کو استعمال کرتے ہوئے عقلی بنیادوں پر ان لوگوں کو اسلام کی طرف بلائیں تو نہ صرف اپنی دعوتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکیں گے بلکہ انسانیت کو ابدی نجات کے راستے پر بھی گامزن کر سکیں گے۔
    مسلمان اگرچہ بہت دیر سے اس موضوع کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں اس موضوع کو وہ اہمیت نہیں دی جو اس کا حق تھا لیکن اس کے باوجود کچھ انفرادی کاوشوں سے یہ موضوع علوم القرآن Sciences of the Holy Qur'an میں اہم مقام حاصل کرچکا ہے،اور اسلام کی طرف Revert ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد  قرآن کریم کی اسی خاصیت phenomena سے متأثر نظر آتی ہے۔
  دنیائے علم کے بہت سے نمایاں نام مثلا مشہور کینیڈین Embrealogest اور embryology کی شہرہ آفاق کتاب The Developing Human  کے مصنف  ڈاکٹر کیتھ مور قرآن کریم میں جنین Human Embryo کی Development کے مراحل stages اور جدید embryology کے ساتھ اس کی معجزانہ مطابقت سے متاثر ہو کر ہی حلقہ بگوش اسلام ہوئے،   اسی طرح مشہور تھائی پروفیسر وسرجن ڈاکٹر ٹاجاٹ ٹاجاسن پین ریسپٹرز پر کئی سالوں تک ریسرچ کے بعد جب اس نتیجے پر پہنچے کہ پین ریسپٹرز انسانی جلد میں پائے جاتے ہیں، اور جلد کے جلنے کے بعد انسان ہر قسم کے درد اور تکلیف سے بے نیاز ہوجاتاہے، یہی حقیقت جب انہیں قرآن کریم میں ملی تو وہ بلا تردد دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ، اس علاوہ اور بھی بہت سے نمایاں نام ہیں جن کا ان شاء الله مستقل مضمون میں ذکر کیا جائے گا۔
    ایک ایمان افروز اور دلچسپ واقعہ کے ذکر پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں،" ڈاکٹر کیتھ مور نے اسلام قبول کرنے سے پہلے قرآن کریم میں مذکور جنین Embryo کی Development کے مراحل پر یمن کے مشہور عالم  شیخ عبدالمجید زندانی (  جنہوں نے اعجاز قرآنی کے موضوع پر قابل قدر خدمات انجام دی ہے اور اس مضمون کو پروان چڑھانے Flourishing میں اہم كردار ادا كیا ہے) سے اس موضوع پر تفصیلی مباحثے اور مکالمے کیے اور اس کے بعد اسلام قبول کیا، اس عرصے میں آپ سعودی عرب کے شہر ریاض میں مقیم تھے، اور اسلام قبول کرتےہی آپ نے اپنی کتاب Development of Human Embryo میں شیخ کی کی مدد سے قرآنی حوالہ جات کا اضافہ بھی کیا،جب آپ واپس کینیڈا پہنچے تو آپ کے دوست ٹورنٹو یونیورسٹی میں جیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر ہر شل  جانس نے آپ کے قرآن کریم کو کتاب الہی قرار دینے کے موقف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم سے جیالوجی سے متعلقہ تمام آیات نکال کر لائی جائیں میں جدید جیالوجیکل نظریات کی روشنی میں ان کا مطالعہ کرکے دیکھتا ہوں کہ آپ کا موقف درست ہے یا نہیں؟ اور میں قرآن کریم کی اس موضوع پر غلطی ثابت کردوں گا ۔
چنانچہ شیخ عبدالمجید زندانی نے وہ تمام آیات جمع کرکے انہیں بھیجیں، آپ نے عرصے تک ان کا عمیق مطالعہ  Intensive Study کیا، اور الله تعالی کے فضل سے نتیجہ ڈاکٹر کیتھ مور کے نتیجے سے مختلف نہ رہا اور آپ بھی مشرف بااسلام ہو گئے،یہ واقعہ مجھے سیرت کے ان واقعات کی یاد دلاتا ہے جب عرب قبائل میں سے بعض لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس کسی منفی غرض مثلا آپ کے پیغام کو رد کرنے ، آپ پر اعتراض کرنے یا نعوذ باللہ آپ کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے آتے تھے لیکن قرآن کے عملی نمونے (آپ صلی الله علیہ وسلم) کے معجزانہ اخلاق کو دیکھ کر اور کلام الٰہی کی فصاحت و بلاغت اور اس کے بلاغی اعجاز سے متاثر ہوکر بے اختیار  اسلام قبول کرلیتے تھے ، اور الله جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف اس کی رہنمائی کرتاہے، اس موقع پر قرآن کریم کی اس آیت کی مصداقیت اور معنویت پر ذرا غور کیجئے کہ یہ کس طرح حرف بحرف اس صورت حال پر صادق آ رہی ہے۔(و يَرَى الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ الَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ هُوَ الۡحَـقَّ ۙ وَيَهۡدِىۡۤ اِلٰى صِرَاطِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَمِيۡدِ ۞)
ترجمہ:"اور (اے پیغمبر) جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور اس (اللہ) کا راستہ دکھاتا ہے جو اقتدار کا مالک بھی ہے، ہر تعریف کا مستحق بھی۔سورۃ سبا آیت نمبر:6"

Comments

Our Some Famous Blogs You Should Read

اللہ تعالیٰ کے وجود کے دلائل

اللہ تعالیٰ کا وجود: دلیل -2 حصہ:سوم

ملحدین کے ایک مغالطے کا جواب

اللہ تعالیٰ کا وجود دلیل -2 حصہ اول

اللہ تعالیٰ کا وجود دلیل -2 حصہ دوم