ملحدین کے ایک مغالطے کا جواب
وجود باری تعالیٰ کے بارے میں ملحدین کے ایک سطحی اعتراض کا جواب
جب منکرین وجود باری تعالیٰ کے سامنے اللہ تعالیٰ کے وجود پر سببیت Cause and Effect کے عام فہم اور انتہائی سادہ قانون سے استدلال کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ: "ہر چیز عدم سے وجود میں آنے کے لیے ایک سبب کی محتاج ہے، معدوم چیز بغیر سبب کے خود بخود عدم سے وجود میں نہیں آسکتی ہے اور نہ ہی عدم کسی چیز کو وجود میں لا سکتا ہے؛ لہذا یہ کائنات بھی وجود میں آنے کے لیے ایک سبب اور خالق کی محتاج ہے اور وہ سبب اور خالق اللہ تعالیٰ کی ذاتِ ہے۔"
اس پر ان کی طرف سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر یہ بات مان لی جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ:" اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ؟"
یہ اعتراض انتہائی سطحی اور رکیک ہے بلکہ یہ سوال ہی سوال فاسد ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو خالق کائنات مان لینے کے بعد یہ سوال کرنا کہ اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ درحقیقت اللہ تعالیٰ کو مخلوق اور کائنات کا حصہ ماننا لازم آتا ہے اور مخلوق کی صفات کو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا لازم آتا ہے ، اور یہ واضح تناقض ہے کہ ایک ہی وقت میں آپ باری تعالیٰ کو خالق کائنات اور کائنات سے باہر اور مخلوق یعنی کائنات کا حصہ بھی مانتے ہیں ۔
رہا سببیت Cause and Effect کا قانون تو وہ مخلوق کے لیے ہے جو زمان و مکان کی حدود میں محدود ہیں، جب کہ اللہ جل شانہ تو زمان ومکان کے خالق ہیں اور زمان ومکان پر لاگو ہونے والے اصول وضوابط سے ماورا اور بالاتر ہیں، لہذا اللہ جل جلالہ کو خالق ماننے کے بعد انہیں زمان ومکان کے قوانین میں مقید ماننا کیسے درست ہوسکتا ہے ؟!
یہ سوال جسے ملحدین اپنے علم و استدلال اور عقل و منطق کی معراج سمجھنے ہیں اس کی بنیاد یہ کہ چونکہ ہم اپنے آس پاس ہر چیز کو اس طرح پاتے ہیں کہ ہر چیز کے وجود کا کوئی نہ کوئی سبب ہے تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی یہی سوال ذہن میں آتا ہے حالانکہ جب ہم اللہ تعالیٰ کو خالق کائنات مان چکے ہیں تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کے اصول و ضوابط سے ماورا اور بالاتر ہے۔
مشہور جرمن فلسفی ایمانویل کانٹ نے اپنی کتاب "نقد العقل الخالص" میں لکھا ہے کہ: "عقل اپنی حقیقت کے اعتبار سے چیزوں کے حقائق کا احاطہ نہیں کر سکتی ہے اور عقل کو اسکی فطرت کے اعتبار سے جزئیات اور اشیاء کے مظاہر Phenomenas کے ادراک کی صلاحیت عطا کی گئی ہے جب کہ وہ ماھیات مجردہ مثلا وجود الٰہی وغیرہ کے ادراک سے عاجز ہے۔"
اسی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس طرح بیان فرمایا: "لوگ مسلسل سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کیاجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا؛ تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ؟
چنانچہ جو شخص ایسی کوئی بات پائے تو اسے چاہیے کہ وہ کہے میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا۔" اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ: " جب لوگ یہ کہیں تو تم یہ کہو: "آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے، اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔"
اس حدیث سے ہمیں تین باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
1- اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں سوال کرنے والے آور اس کے بارے میں شک و شبہ کرنے والے ہر دور میں موجود رہیں گے.
2- وجود باری تعالیٰ کا مسئلہ ایسا ہے کہ عقل اس کا احاطہ نہیں کرسکتی ہے.
3- اللہ تعالیٰ کے وجود ، اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اور صفات کو مخلوق کی صفات اور حالات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
Comments
Post a Comment