مچھر کی تخلیق: آللہ تعالیٰ کی قدرت اور قرآن کریم کا اعجاز

مچھر کی تخلیق !!!متکبر انسان کے لیے عبرت!!!

انسان کا - اپنی کوتاہ نظری، علمی بے مائیگی اور ضعف وعجز کی وجہ سے -  سرمایہ افتخار یہی ہے کہ وہ خالق کائنات کے علم وحکمت اور قدرت کےسامنے سر تسلیم خم کرے، اور سراپا عجز ونیاز بن جائے کہ یہی عبدیت کا تقاضا ہے اور یہی اس كى سعادت ہے-

لیکن غافل اور متکبر انسان اس کے برعکس اللہ  تعالی کی ذات وصفات ، اس کے کلام اور اس کے احکامات پر طرح طرح کے رکیک اور بودے اعتراضات کرکے اپنی فکری برتری اور اپنے علمی گھمنڈ کی تسکین کرتا رہتاہے، اور ان رکیک اعتراضات کو عقل وفلسفے کا کمال  اور فکر ونظر کی معراج سمجھتا ہے۔

  جب کہ الله جل شأنه کی سنت یہ ہے کہ وہ اپنی حکمت سے ایسے لوگوں کو مہلت دیتے ہیں اور ایک مقررہ وقت پر علم وفکر کا ریلا  ان کے اعتراضات کے خس وخاشاک کو بےدردی سے بہا کر لے جاتا ہے، اور يوں  یہ فکری پسپائی بہت سے لوگوں کے لیے عبرت اور نصیحت کا سامان بن جاتی ہے، اس طرح کے کوتاہ نظر اور اپنی فکر وعقل پر گھمنڈ کرنے والے ہر زمانے میں پائے جاتے رہے ہیں اور پائے جاتے رہیں گے اور یہی تو درحقیقت انسان کا امتحان ہےکہ وہ تسلیم ورضا كا دامن تھامتاہے یا تکبر و انا اور جھوٹی بڑائی کی چادر زیب تن کرتا ہے۔

نزول قرآن کے وقت بھی ایسے لوگ موجود تھے جو حق تعالی شأنہ کے کلام پر طرح طرح کے اعتراضات کرنے کی جسارت کیا کرتے تھے ان کے اعتراضات میں سے ایک  رکیک اعتراض اس وقت سامنے جب الله جل شأنہ نے قرآن کریم میں مکھی اور مکڑی وغیرہ کا بطور مثال ذکر کیا تو وہ کہنے لگے کہ: " یہ کیسا کلام الہی ہے کہ اس میں ان حقیر چیزوں کا تذکرہ پایا جاتاہے" الله جل شأنہ نے ان کے اس اعتراض کے رد میں سورة البقره کی آیت نمبر 26 میں ارشاد فرمایا:((بے شک الله تعالی اس بات سے نہیں شرماتا ہے کہ وہ کوئی بھی مثال بیان فرمائے، خواہ وہ مچھر کی ہو یا ایسی چیز کی جو مچھر سے  بھی زیادہ (معمولی) ہو۔))

اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے مچھر تو مکھی اور مکڑی سے بھی زیادہ حقیر ہے جن کی بنیاد پر مشرکین نے اعتراض کیا تھا گویا کہ الله جل شأنہ نے ان کے اعتراض کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ مکھی اور مکڑی کو تو چھوڑ دیں الله جل شأنہ تو ان سے بھی زیادہ حقیر چیز یعنی مچھر اور مچھر سے بھی زیادہ حقیر چیز کی مثال بیان کرتے ہوئے نہیں شرماتا ہے کیونکہ اگر  حقارت کی مثال دینی ہوگی تو حقیر چیز سے ہی دی جائے گی، اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ انسان نے اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے مخلوقات کو چھوٹی بڑی اور عظیم و حقیر میں تقسیم کیا ہوا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کا ئنات میں پائی جانے والی ہر چیز ہی دراصل الله جل شأنہ کی قدرت کا شاہکار اور الله جل شأنہ کی عظیم و بے مثال قدرت کی دلیل ہے۔

جب سے تجریبی علوم نے  Experimental Sciences پھلنا پھولنا شروع ہوئے، اور ان میں ہونے والی روز افزوں تحقیقات نے کائنات کے سر بستہ رازوں سے پردے  اٹھانے شروع کیے تو انسان کے لیے الله تعالی کی قدرت کے مظاہر Phenomena کو سمجھنا بھی بہت آسان ہو گیا ہے، اور عقل پرست انسان کے لیے کوئی عذر  باقی نہیں رہا،  چنانچہ مچھر جسے انسان نے ہمیشہ ذلت و حقارت کا استعارہ بنائے رکھا جب اس کی جسمانی ساخت کی تحلیل وتجزیہ کیا گیا تو انسان بے اختیار الله جل شأنہ کی عظیم قدرت کے سامنے بے اختیار سر بسجود ہو گیا۔ چنانچہ اس کی جسمانی ساخت کے چند نمایاں خد و خال ملاحظہ کیجیے۔۔۔۔۔

ماہرین حیوانات کے مطابق مچھر کے سر میں 100 آنکھیں جب کہ اس کے منہ میں 48 دانت اور اس کی تھوتھنی میں  6 چھریاں ہوتی ہیں اور ہر چھری کا الگ الگ فنکشن اور وظیفہ ہوتا ہے، اس کے تین کامل دل ہوتے ہیں، اور اس کے دونوں پہلوؤں میں تین تین پر ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں ایک مچھر میں دوسرے تمام جانداروں میں پائے جانے والے عام نظاموں کے علاوہ درج ذیل نظام پائے جاتے ہیں۔

  نظام حرارت: مچھر میں ایک کامل نظام حرارت پایا جاتا ہے جو ایکسرے کی طرح کام کرتا ہے اور تاریکی میں انسانی کھال کو بنفشی رنگ میں منعکس کرتا ہے جس کی وجہ سے مچھر کے لیے اسے اندھیرے میں دیکھنا ممکن ہوجاتا ہے۔

سن کرنے کا نظام: مچھر میں انسانی کھال کو سن....... کرنے کا ایک کامل نظام پایا جاتاہے، چنانچہ جب وہ ڈنک مارتا ہے تو جلد کے سن ہونے کی وجہ سے انسان اس وقت تک اس  کے  ڈنک کو محسوس نہیں کرتاہے، جب تک کہ وہ خون چوس نہ لے۔

خون کی تحلیل کا نظام: ڈنک مارتے ہی فورا یہ نظام حرکت میں آتا ہے اور خون چوسنے سے پہلے خون کی تحلیل وتجزیہ کرتاہے اگر خون مچھر کے لیے نقصان دہ ہو تو اسے نہیں چوستا ہے۔

خون کو پتلا کرنے کا نظام: مچھر کی تھوتھنی میں خون کو پتلا کرنے کا نظام موجود ہے  چنانچہ خون چوستے ہی فورا پتلا ہوجاتا ہے تاکہ وہ اس کی انتہائی باریک تھوتھنی سے گزر سکے۔

سونگھنے کا غیر معمولی نظام: مچھر میں انسان کی بو سونگھنے کا غیر معمولی نظام پایا جاتا ہے چنانچہ وہ 60 میٹر دور سے ہی انسان کے جسم اور اس کے پسینے کی بو سونگھ لیتا ہے۔

بعوضة فما فوقها میں پایا جانے والا سائنسی اعجاز

سورة البقر ة کی آیت نمبر 26 کے مذکورہ بالا  حصے کے  بارے عام مفسرین نے دو رائے اختیار کی ہیں ۔

1-فمافوقہا میں مچھر سے بھی حقارت میں کم ترچیز کا بیان ہے یعنی: (( الله جل شأنہ مچھر یا حقارت میں مچھر سے بھی کم تر چیز کی مثال بیان کرتے ہوئے نہیں شرماتا ہے))

2-فما فوقہا میں مچھر سے بڑی چیز کا بیان ہے یعنی:((الله جل شأنہ مچھر یا مچھر سے بڑی چیز کی مثال بیان کرتے ہوئے نہیں شرماتا ہے))

لیکن اس کا ایک اور معنی بھی ہوسکتا ہے کہ ((وہ چیز جو مچھر کے اوپر ہے)) لغت عرب ، قرآن کریم کا اسلوب اور جملے کی ساخت اس معنی کی بھرپور تا یید کرتے ہیں اور جدید علم الحیوانات Modern Biology سے اس کی تا یید بھی ہوتی ہے کہ مچھر کی پیٹھ پر ایسے چھوٹے چھوٹے مائیکرو اسکوپک  جاندار  ہوتے ہیں جو خالی آنکھ سے نظر نہیں آتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو ایسی چیز کے بارے میں کس طرح علم ہوا جس کا انکشاف جدید طاقتور مائیکرو اسکوپ کی ایجاد کے بعد ہی ممکن ہو سکا ؟

کیا آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے اس کی معرفت کے وسائل وآلات موجود تھے؟؟

کیا اس  کا علم اس زمانے کے انسان کی صلاحیت اور دسترس میں تھا؟؟؟

تو قدرت کے اس مظہر اور چودہ سو سال پہلے اس کے انکشاف کی ایک ہی توجیہ کی جاسکتی ہے کہ یہ  کلام خالق کون ومکان کا کلام ہے اس نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر اسے نازل فرمایا، اور یہ آپ کی رسالت ونبوت کی واضح دلیل ہے

Comments

Our Some Famous Blogs You Should Read

اللہ تعالیٰ کے وجود کے دلائل

اللہ تعالیٰ کا وجود: دلیل -2 حصہ:سوم

قرآن کریم کا سائنسی اعجاز

ملحدین کے ایک مغالطے کا جواب

اللہ تعالیٰ کا وجود دلیل -2 حصہ اول

اللہ تعالیٰ کا وجود دلیل -2 حصہ دوم