اللہ تعالیٰ کا وجود دلیل -4 حصہ دوم

اللہ تعالیٰ کا وجود؛ (دلیل- 4  حصہ:دوم)

اللہ تعالیٰ کے وجود پر اخلاقی دلیل Moral Argument of the Existence of Almighty Allah
مقدمہ نمبر-2: معروضی اخلاقی اقدار objective moral values اور اخلاقی فرائض پائے جارہے ہیں۔
وضاحت:  روئے زمین پر پائے جانے والے انسانوں کی اکثریت دوسرے لوگوں کے ساتھ اچھے رویے سے پیش آنے کے خواہاں نظر آتے ہیں اور وہ چاہتے ہوئے بھی ان اخلاقی اقدار کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں، بلکہ وہ بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی اور حالات و توقعات expectations کہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس رویے سے پیش آتے ہیں, آگر آپ غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اکثر اوقات لوگ شخصی subjective  مفادات سماجی حالات اور توقعات expectations کے خلاف چلتے ہیں،جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں پھیلے ہوئے ظلم وستم کے خلاف ایسی جگہوں سے آوازیں اٹھ رہی ہوتی ہیں ، جہاں سے ایسی آواز اٹھنے کی کوئی توقع نہیں ہوتی ہے ، اس سے یہ معلوم ہوتا کہ انسان نیچرل پراسیس اور شخصی مفادات سے بڑھ کر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ اخلاقی اقدار کو معروضیت اور objectiveism کی نگاہ دیکھتا ہے ۔
چنانچہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نسل پرستی ، چوری، ڈاکہ زنی ، رشوت خوری ، دھوکہ فراڈ، قتل وغارت گری اور عصمت دری جیسے گھناؤنے کام اخلاقی طور پر غلط اور برے ہیں ، اور تمام لوگ انہیں برا سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کوئی شخص
بھی کھلم کھلا کبھی ان کا اقرار نہیں کرتا ہے، یہاں تک کہ ان میں ملوث افراد بھی ان گھناؤنے کاموں سے پاک صاف ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں ۔
اور اگر کچھ لوگ ان گھناؤنے کاموں کی برائی پر متفق نہیں ہیں تو درحقیقت ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہے، اور وہ نارمل انسان نہیں ہیں لہذا ان کے عمل کا انسانی اخلاق کے تجزیے میں کوئی اعتبار نہیں، اور انسانی تجزیے کے لیے سے وہ عیب دار defective سیمپل ہیں اور انہیں تجزیے کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔
اگر الحادی atheistic اور نیچری naturalistic نقطہ نظر کے اعتبار سے انسان محض ارتقاء evolution کا ہی نتیجہ ہوتا تو آج ہمیں ہرطرف جو انسانی حقوق، اور انصاف کی باز گشت سنائی دیتی ہے وہ نہیں سنائی دیتی ، بلکہ  شخصی خواہشات کا  ہرطرف دور دورہ ہوتا ہے ، اور حقوق اور اخلاقی ذمہ داریاں ایک وہم illusion ہوتیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہ ہوتا، لیکن اس کے برعکس موجود دور میں بھی جب کہ یہ بات زبان زد عام ہو چکی ہے کہ ہرطرف ظلم وستم کا دور دورہ ہے، پھر بھی آپ دنیا کے کسی نہ کسی کونے سے ظلم کی مذمت اور اس کے خلاف بغاوت کی آوازیں سنتے ہیں،  جو اخلاقی اقدار کی معروضیت objectivity  کی دلیل ہے۔
جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اساسی اخلاقی اقدار intrinsic moral values موجود ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مجہول impersonal ، اقدار سے عاری، فطری ارتقائی عمل natural evaluation process کے ذریعے یہ معروف و متعین اخلاقی اقدار کس طرح وجود میں آسکتی ہیں، کیونکہ کسی صفت اور خوبی سے محروم چیز کا اس صفت اور خوبی کو عطا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھنا ایک عقلی اور منطقی بات ہے؟!
لہذا گزشتہ دونوں مقدمات کا خلاصۃ یہ ہے کہ جب اخلاقی اقدار موجود ہیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا کہ مادے اور اس کائنات سے ماورا transcendent ہستی موجود ہے جس کے فیض سے نہ صرف انسانوں میں بلکہ دوسری مخلوقات میں بھی مادے سے ماورا transcendent صفات موجود ہیں اور وہ ذات اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ"اللہ تعالیٰ موجود ہے۔"
اور انسانوں میں پائی جانے والی اخلاقی صفات رحم، کرم، علم وحکمت، عدل و احسان وغیرہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس اور پرتو ہی ہے اور بہت سے مفسرین کے نزدیک انسان کے اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا عکس اور پرتو پایا جاتا ہے ۔
اخلاقی اقدار کی آفاقیت اور قرآن کریم:
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر اس بات کو بہت سے مقامات پر واضح کیا ہے کہ انسان کو نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی کے راستے دکھا دیے اسے رحمانی صفات کا راستہ بھی دکھا دیا اور شیطانی صفات کا راستہ بھی دکھا کر اسے اختیار دیا کہ وہ کس طرح اپنی مرضی سے خیر کا راستہ اختیار کرتا ہے یا شر کا؟!
سورۃ الشمس میں نفس انسانی کی تخلیق اور اس کو سنوارنے یعنی اس میں اعلی فکری صلاحیتیں پیدا کرنے کے ذکر کے بعد ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(فاَلۡهَمَهَا فُجُوۡرَهَا وَتَقۡوٰٮهَا ۞)
"پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔"
اور سورۃ البلد میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وهَدَيۡنٰهُ النَّجۡدَيۡنِ‌ۚ ۞)
ترجمہ:"اور ہم نے اس کو دونوں راستے بتا دیئے ہیں۔"
"دونوں راستوں"سے مراد نیکی اور بدی کے دو راستے ہیں جب کہ " بتانے "سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی سرشت میں بھی دونوں چیزیں رکھ دیں، اور وحی کے ذریعے خیر اور شر میں فرق اور تمیز بھی سکھا دی۔"
ان آیتوں سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ: خیر و شر کی پہچان اور نیکی کی طرف انسانی طبیعت کا میلان اور برائی سے نفرت یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہیں ۔
اور دوسری بات ضمنی طور پر یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ چونکہ یہ دنیا انسان کے لیے جزا اور بدلے کی جگہ نہیں ہے بلکہ آزمائش اور امتحان کی جگہ ہے اس لیے انسان میں خیر و شر کی پہچان کی صلاحیت رکھنے، اور وحی کے ذریعے خیر اور شر کے بارے میں آگاہی دینے کے بعد اسے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے خیر و شر میں سے جس راستے کو بھی اختیار کرنا چاہے کرے، اسے قدرت ، علم و آگاہی اور اسباب دونوں کے فراہم کردیے گئے ہیں ۔


Comments

Our Some Famous Blogs You Should Read

اللہ تعالیٰ کے وجود کے دلائل

اللہ تعالیٰ کا وجود: دلیل -2 حصہ:سوم

قرآن کریم کا سائنسی اعجاز

ملحدین کے ایک مغالطے کا جواب

اللہ تعالیٰ کا وجود دلیل -2 حصہ اول

اللہ تعالیٰ کا وجود دلیل -2 حصہ دوم