اللہ تعالیٰ کا وجود دلیل -4؛ حصہ اول
االلہ تعالیٰ کا وجود (دلیل - 4 ; حصہ:اول)
اللہ تعالیٰ کے وجود پر اخلاقی دلیل Moral Argument of the existence of God:
اللہ تعالیٰ کے وجود پر دیے جانے والے واضح ترین دلائل میں سے ایک دلیل انسانی اخلاق کی آفاقیت universality بھی ہے اس دلیل کو axiological argument بھی کہا جاتا ہے جو یونانی لفظ axios سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں قدر، اہمیت اور اخلاق۔
دلیل کی وضاحت: اس دلیل کا خلاصۃ یہ ہے کہ اخلاقی اقدار کو اپنی فطرت کے لحاظ سے تمام لوگوں کے لازما معروضی objective اور غیر جانبدار ہونا چاہیے تاکہ مضبوط، غیر جانبدار اور آفاقی universal بنیادوں پر قابل قبول ہو سکیں ۔
جب کہ دوسری جانب ملحدین atheists چونکہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے قائل نہیں ہیں اس لیے وہ کسی مطلق absolute، اور شخصی تاثیر subjective influence سے ماورا transcendent اخلاقی اقدار کے وجود کے قائل نہیں، وہ بڑے زور و شور سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اخلاقی قدریں اپنی فطرت کے اعتبار سے اضافی relative اور شخصی subjective ہیں اور ان کا تعلق ہر انسان کے اپنے کلچر اور پس منظر سے ہوتا ہے۔ اور رہی وہ اخلاقی اقدار جنہیں دنیا میں وسیع پیمانے پر قبولیت عام حاصل ہوگئی ہے تو ان کے بارے میں ملحدین کا خیال ہے کہ ان اخلاقی اقدار کو نسل درنسل خالص مادی نکتہ نظر سے ایک غریزہ instenct ہونے یعنی انسانی سروائیول کی تکنیک ہونے کی وجہ سے ہی پزیرائی ملی ہے، اور ان اقدار کی کوئی روحانی،غیر مادی اور مابعد الطبیعیاتی metaphysical بنیاد نہیں ہے۔
اس نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو ایک ملحد کے نزدیک ایک انسان کا اپنی پیدائش کے بعد اپنے والدین کے ساتھ والہانہ پیار ومحبت اور شفقت و مودت کا جو رشتہ قائم ہوتا ہے اس میں اور مکڑی کے بچوں کے اپنی پیدائش کے بعد اپنی ماں کو نوچ نوچ کر کھانے میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں ہی غریزی عمل instenct actions اور اپنی بقاء کی تکنیک ہیں ۔
الحادی اور نیچری naturalist افکار و نظریات کے حامل افراد کا خیال ہے کہ انسانی رویوں کی خالص حیوانی بنیادوں پر تفسیر کی جاسکتی ہے، لہذا ان کی تفسیر کے لیے کسی آسمانی اور مابعد الطبیعیاتی مقاصد کی قطعا کوئی ضرورت نہیں، صرف حیوانی ترغیب و تحریک جس کی تعیین اس کی حیاتیاتی ساخت اور ضرورت سے ہوتی ہے وہ اس مقصد کے لیے کافی ہے، لہذا ان کے نزدیک ہر اخلاقی قدر سکڑ کر مادی اور حیوانی رسپانس اور غریزی ردعمل instenct reaction میں سکڑ کر رہ گئی ہے ۔
لہذا ان خالصتاً مادی افکار و نظریات رکھنے والوں پر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ:بنی نوع انسان نے اپنی اخلاقی اقدار کہاں سے حاصل کیں؟!
الحاد atheism اور نیچریت naturalism اس بات کی کیا تفسیر و توجیہ کرتے ہیں کہ انسان جو ان کے نقطہ نظر میں دوسرے حیوانات سے بالکل بھی مختلف نہیں ہے وہ کس طرح اچھے اور برے اخلاق اور اچھی اور بری اخلاقی قدروں تک رسائی کر پایا ہے؟
اگر یہ کائنات اتفاقا وجود میں آتی اور فطرت کی مجہول آندھی اور بہری قوتوں کے ماتحت اتفاقاً الل ٹپ چل رہی ہوتی تو کس طرح متعین انسانی اخلاقی اقدار صرف انسانوں میں ہی معروض وجود آئیں؟! کیونکہ متعین اور پرسنل جیز کبھی بھی مجہول اور impersonal چیز سے پیدا نہیں ہوسکتی ہے۔
اس تمہید کے بعد اب استدلال کی طرف آتے ہیں ، اس استدلال argument کا خلاصۃ دو مقدمات premises اور ان کا نتیجہ conclusion ہے۔
پہلا مقدمہ premises: "اگر خدا نہ ہوتا تو معروضی اخلاقی اقدار objective moral values موجود نہ ہوتیں ۔"
دوسرا مقدمہ premises: "معروضی اخلاقی اقدار objective moral values موجود ہیں ۔"
نتیجہ؛ لہذا خدا بھی موجود ہے ۔
پہلے مقدمے کی وضاحت: اخلاقی اقدار سے مراد درحقیقت وہ رویہ ہے جس سے معاشرے پر اچھے اور مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، اور اس کے خوش گوار اثرات مثالی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور اس سلسلے میں وہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، مثلا ایثار و قربانی ، احسان و نیکی، دوسروں کی مدد اور انہیں سہارا فراہم کرنا اور معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، ان رویوں کا انسان سے مطالبہ تو کیا جاتا ہے لیکن ان پر عمل اس پر فرض و لازم نہیں ہے۔
ان کے برعکس کچھ اخلاقی فرائض اور زمہ داریاں ہوتی ہیں جن پر عمل کا انسان سے مطالبہ کیا جاتا ہے، اور انسان کے لیے ان رویوں کو اختیار کرنا فرض و لازم ہوتا ہے، اسے ان پر عمل کرنے یا نہ کرنے میں اختیار نہیں ہوتا ہے، مثلا سچائی ، دیانت داری ، عدل وانصاف وغیرہ، کیونکہ ان اخلاقی رویوں پر عمل کے بغیر اس دنیا کا نظام قائم نہیں رہ سکتا ہے، اور ظلم و ستم کا بازار گرم ہو جاتا ہے اور اس دنیا کا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے۔
اس بحث میں جب ہم اخلاقی اقدار کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد دونوں قسم کے اخلاقی رویے ہی ہوتے ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ انسانوں کا قتل عام اور نسل کشی کیوں جرم ہے؟ اس میں کیا برائی ہے ؟ اگر الحادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ملحد ہٹلر نے ارادے و عمل کی آزادی کے نام پر اور اپنی قوم کی تعمیر وترقی کے لیے اپنے زعم کے مطابق دوسری ناکارہ اقوام useless eaters کی نسل کشی اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی ٹھانی، چنانچہ اس نے غیر جرمن اقوام مثلا سالوک Gypsies ،Slavics اور آل یعقوب کا نام ونشان مٹانے کے لیے بڑے وسیع پیمانے پر نسل کشی genocide کی اور ان بے گناہ انسانوں کو گیس کی انتہائی ہولناک بھٹیوں میں زندہ جھونک کر لقمہ اجل بنا دیا جاتا تھا۔
اور اس کے ملحدانہ نظریات کے اعتبار سے یہ ایک تطہیری غسل تھا اور اس کی قوم کے فائدے لیے تھا اگر اخلاقی اقدار کو شخصی اور subjective مان لیا جائے تو ہم اور آپ اس کو برا کہنے والے کون ہو سکتے ہیں ؟!
اسی الحادی نقطہ نظر سے اپنے بوڑھے والدین کی دل و جان سے خدمت کرنا اور انہیں بے سہارا اولڈ ایج ہومز میں چھوڑ آنا، اپنے ملازموں اور ماتحتوں کے ساتھ احسان کا سلوک کرتے ہوئے نبوی اسوہ حسنہ کے مطابق جو خود کھائیں وہی انہیں کھلانا، اور جو خود پہنیں وہی انہیں پہنانا، یا ان پر ظلم وستم کرکے اور ان کا خون نچوڑ کر ان پر عرصہ حیات تنگ کرنا، یتیم اور بے سہارا بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کرکے انہیں پاؤں پر کھڑا کرنا یا معصوم بچوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا برابر ہیں۔
الحادی atheistic نقطہ نظر کے مطابق چونکہ انسان ارتقائی عمل evaluationary process سے گزرتا ہوا محض ایک حیوان ہے، اس لیے ان کی ایک دوسرے پر کوئی اخلاقی ذمہ داری نہیں، اور کسی مطلق اور مادی فائدے سے ماورا transcendent اخلاقی معیار کا کوئی تصور نہیں؛ لہذا ان کے ہاں ایڈولف ہٹلر اور عبد الستار ایدھی کے درمیان کوئی فرق نہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ بات اتنی ہے کہ ایک آدمی کا ذاتی subjective نظریہ اور عمل دوسرے سے مختلف ہے اور ان دونوں میں سے کسی کو صحیح یا غلط کہنے کی کوئی بنیاد نہیں ۔
اس نقطہ نظر کے اعتبار سے منشیات کی خرید وفروخت اور منشیات کے عادی افراد کے علاج معالجے اور ان کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں کوئی فرق نہیں ، اگر فرق ہے تو صرف مادی فائدے اور منافع کے اعتبار سے ہے کہ جس کام میں زیادہ مادی نفع ہے وہی اخلاقی معیار کی اعلیٰ سطح پر ہے، لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی اکثریت پہلے کام کو برائی اور دوسرے کو اچھائی سمجھتے ہیں، چنانچہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اخلاق شخصی اور subjective ہیں تو ایک کام کو اچھا سمجھنے اور دوسرے کو برا سمجھنے کی بنیاد کیاہے؟
لہذا معلوم ہوا کہ اخلاق شخصی subjective، اور situational نہیں ہیں بلکہ معروضی اور objective ہیں اور اسی وجہ سے انسانوں میں اخلاقی ذمہ داری کا تصور اور اچھائی اور برائی کا آفاقی تصور موجود ہے اگر مادہ اور کیمیکل پراسس ہی سب کچھ ہوتا اور انسان اسی کا نتیجہ ہوتا، اور اس سے ماورا transcendent کچھ نہ ہوتا تو اخلاقی اقدار کی یہ آفاقیت universality اور objectivity ہرگز نہ ہوتی بلکہ بسا اوقات سب سے زیادہ لالچی، ظالم اور بے رحم شخص ہی سب سے زیادہ با اخلاق اور اور اخلاقی اقدار کا پاسبان و نمائندہ ہوتا ۔
Comments
Post a Comment